08-Jan-2022 مولوی کی بیٹی کی کہانی -
مولوی کی بیٹی
قسط نمبر ایک
نور
رائٹر Mawra Farrukh
نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی کٹر مزہبی گھرانہ تھا وہ مولوی ظہور کی بیٹی تھی جن کو سب پیار اور عزت سے پا جی بلاتے تھے اور مولوی کے گھر والی کو آپاں جی آپاں جی بس قران مجید ہی پڑھی تھی سکول کا منہ نہیں دیکھا کبھی ساری زندگی گھر سے پیر باہر نہیں نکالا تھا سو زمانے کی ھوا نہیں لگی تھی انکو مولوی صاحب کی سات اولادیں تھی چار بیٹیاں تین بیٹے بیٹوں کا رعب دبدبہ تھا لیکن بیٹیوں کو زمانہ جاہلیت کی طرح کوئی قدر نہیں تھی اس گھر میں جس بھائی کا جب دل کرتا بہنوں پے ھاتھ اٹھاتا برا بھلا کہتا
آپ سب لوگو کی اجازت سے پوسٹ کر رہئ ھوں مولوی کی گھر کا ماحول بہت گھٹن زدہ اور پابندیوں کی وجہ سے قید خانے سے کم نھیں تھا دروازے سے باہر جھانکنا بہت معیوب سمجھا جاتا لڑکے تو باہر آوراہ گردی کو نکل جاتے لڑکیاں گھر کا مختصر سا کام کرکے سارا دن اک دوسرے کا منہ دیکھا کرتی اب کیا کریں گھر میں ٹیلی وزن تو دور کی بات ریڈیو اور رسالے پڑھنا بہت میعوب سمجھا جاتا تھا لڑکیاں گھر میں سر منہ چادر سے ایسے لپیٹ کے رکھتی جیسے کھلے بازار میں ھوں بھائی ہر وقت نوک ٹوک کرتے بات بات پر بہنوں پر طنز اور ھاتھ اٹھانا انکے کیے بڑی بات نہیں تھی روز کا معمول تھا لیکن لڑکیاں تو بہت حساس ھوتی ھیں اندر ہی اندر نفرت کے لاوے تھے جو پل رہے تھے بڑی دونوں شازیہ اور شائستہ شادی کی عمر کی تھی شازیہ کی منگنی بھی ھوئی تھی چھوٹی دونوں نور اور نورین چھوٹی تھی سرکاری سکول جاتی تھی مولوی صاحب کا بڑا بیٹا کرایے کی ٹیکسی چلاتا تھا اس سے چھوٹا آوارہ گردی میں مست سب سے چھوٹا آٹھویں میں پڑھتا تھا مولوی صاحب جتنے نیک اور نرم دل انسان تھے بیٹے انکے الٹ مولوی صاحب کو دنیا داری سے کچھ لگن نہیں تھی مسجد اور دم درود سے فرصت نہیں تھی وہ کسی سے کچھ نہیں لیتے تھے اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے خدمت خلق میں مست رہتے انکو کون سمجھاتا گھر میں جو چار بیٹیاں ھیں انکی چھوٹی چھوٹی خوہشیں بھی ھیں جو خدمت خلق نہیں سمجھتی وہ اپنی اولاد کو دو وقت کی دال روٹی کھلا کر خوش اور مطمئن تھے لیکن لڑکیاں اندر ہی اندر گھل رہی تھی انکو شرم آتی تھی کسی کے سامنے پھٹے پرانے کپڑوں میں آتے۔
تہجد کا ٹائم تھا مولوی صاحب کی آنکھ خود بخود کھلنا روز کا معمول تھا انکو کسی آلارم کی ضرورت نہیں پڑتی تھی ویسے بھی اللہ والوں کی لو اللہ سے ھوتی ہے اور جن کی لو اللہ سے ھو انکو وہ خود بلاتا ہے مولوی صاحب بھی اللہ والے تھے انہوں نے اپنی چپل پیروں میں ڈالی اور غسل خانے کی طرف چل دیے ہینڈ پمپ کی اواز پانچ مرلے کے گھر میں گونجنے لگی وہ وضو کرکے نکلے تو انکی نورانی داڑھی سے پانی موتیوں کی لڑی کی طرح بہ رہا تھا بیشک وہ اللہ کے عاجز پرہیز گار اور خدا سے ڈرنے والے نیک بندے تھے وہ مسجد گئے تو آپاں جی بھی اٹھ بیٹھی وضو کیا لڑکیوں کواک آواز پر ہی لڑکیاں اٹھ بیٹھی لیکن لڑکوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی روز کی طرح سو رہے تھے نماز کے لیے آوازئیں دینے لگئیں بیٹیاں جتنی فرما بردار تھی بیٹے اتنے ہی نا فرمان وجہ آپاں جی بے جا لاڈ پیار تھا جو بس بیٹوں کے لیے ہی تھا بیٹوں کے لیے نرم گوشہ نی تھا آپاں جی کی عجیب سوچیں تھی ویلے نکمے بیٹے جیسے ہی سارا دن آوارا گردی کرکے گھر آتے وہ باولی ھو کر آوزایں لگانے لگتی اوہ شازیہ روٹی دے دے بھائی کو اوہ شائیستہ پانی لا بھائی کے لیے اور لڑکیاں دل ہی دل میں جلتی بھنتی لگ جاتی بھائیوں کی خدمت میں نور مولوی صاحب کی سب حساس بیٹی تھی وہ حد سے زیادہ خوبصورت اور زہین تھی پڑھنے لیکھنے کی شوقین اس کے الگ ہی شوق تھے اسے بچپن سے ہی لگتا تھا وہ اس ماحول کے لیے نہیں بنی اسے یہاں نہیں رہنا اسے پڑھنا ہے کچھ بننا ہے جب گرمی کی کی دوپہروں میں سب پچھلے کمرے میں سو رہے ھوتے تھے وہ مولوی صاحب کی کتابوں کو کھول کر بیٹھ جاتی ورق ورق چھانٹتی جب مولوی صاحب کے آنے کا ٹائم ھوتا فورن کتابئیں چھوڑ کر بیٹھ جاتی وہ غصہ کرتے تھے کس نے کتابوں میں ھاتھ ماراھے نور کو پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ علم کی پیاسی تھی جب مولوی صاحب سودا سلف لیکر آتے تو اخبار کے ٹوٹے میں لپٹی ھوئی دال کو پرات میں ڈال کر پڑھنے لگتی اخبار میں کبھی کبھی تو آدھی سٹوری مل جاتی کبھی غزل کبھی نظم کبھی خبروں کے بقیے ھوتے نور وہ بھی چاٹ لیتی کبھی کبھی کوئی ادھوری کہانی اسے بہت بے چین کرتی اور خیالوں میں وہ اسے پورا کرنے لگتی جب تک نور نے پانچ کلاسیں کی مولوی صاحب کی دونوں بڑی بیٹیوں کی شادی کر دی گئی تھی شادیاں بھی کیا کی تھی بس بوجھ کی طرح اتار کر پھینک دیا تھا انکو جہیز کے نام پر چند برتن اور فرنیچر کے نام پر ایک ایک بیڈ دو دو کرسییاں پر بیٹیاں بہت خوش تھی اس قید خانے سے جان چھوٹی یہاں قید جیسا ماحول نہیں تھا سب آپس میں ہنسی خوشی رہتے تھے چھوٹی کا شوہر اس سے دس سال بڑا تھا پر وہ خوش تھی
نور جیسے جیسے بڑی ہو رہی تھی ہر طرف اسکی خوبصورتی کے چرچے ہونے لگے رہی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگتے سرخ گلابوں جیسی رنگت سنھرے بال وہ بہت شرمیلی اور کم گو تھی ہر جعمرات کو لوگ ختم کی روٹی لیکر لڑکیاں اور عورتیں مولوی صاھب کے گھر آ تے اور نور کو بھی اسکے حسن کی سلامی دیتے نور کو تو اتنی پرواہ نہیں تھی لیکن نور سے چھوٹی بہت نوٹ کرتی کے ہر آ نے والا نور کی طرف کھینچا چلا جاتا ھے
یہ بات اسکو اندر ہی اندر بری طرح جلا رہی تھی نور بہت ہی فرما بردار تھی اس لئے ابھی تک کسی بھی بھائی کے عتاب کا نشانہ نہیں بنی تھی نا آ پاں جی اسے کچھ کہتی تھی پورے گھر اور پنڈ کی لاڈلی تھی نور . پانچویں پاس کی تو نور کی حالت دیدنی تھی گاؤں میں پرایمری کے بعد سکول نہیں تھا اگر مزید پڑھنا تھا اسکے لئے دو بسیں بدل کر جانا پڑتا اور یھاں تو گھر سے باھر پیر رکھنے کی اجازت نہیں تھی نور نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا کھانا پینا تک چھوڑ دیا
۔
Manzar Ansari
03-Feb-2022 05:21 PM
Good
Reply
fiza Tanvi
18-Jan-2022 04:34 PM
Good
Reply
Simran Bhagat
12-Jan-2022 02:19 PM
Bht khoob
Reply